قصور شہر میں ایک سات سالہ بچی زینب کسی درندہ صفت مرد کی بربریت کا شکار ہو گئی۔ آج اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر ملی ہے۔ میڈیکل رپورٹ سے پتا چلا کہ قتل کرنے سے پہلے زینب کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ اس خبر سے پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سب لوگ حیران پریشان ہیں کہ پاکستان میں ایسا واقعہ کیسے ممکن ہوا۔ پاکستان بچوں، بچیوں اور عورتوں کے لیے ایک بہت محفوظ ملک ہے۔ یہاں پر جنسی تشدد اور ریپ جیسے واقعات کبھی نہیں ہوتے کیونکہ یہاں بچوں، بچیوں اور عورتوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے بہت معقول انتظامات کیے گئے ہیں۔
سکولوں اور میڈیا کے ذریعے بچوں کی خاص تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ جنسی تشدد کے خلاف اپنی حفاظت کر سکیں۔ اس سلسلے میں تمام سکولوں کا نصاب بین القوامی تجربات اور علم کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔ ایسا کورس پڑھانے کے لیے اساتذہ کی خاص طور پر تربیت کی جاتی ہے۔ نئے آنے والے تمام اساتذہ بھی یہ کورس پڑھانے کی تربیت اپنے پروفیشنل کالجز سے لے کر آتے ہیں۔
سارے والدین بھی بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ سب والدین اس سلسلے میں اپنے بچوں کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں اور انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں تاکہ بچے کسی بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ اس تربیت کی وجہ سے بچوں کے لیے جنسی تشدد کے حوالے سے بات کرنا بہت آسان ہے۔ والدین اور اساتذہ اس سلسلے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے بچے کسی بھی اجنبی یا جاننے والے کے چنگل میں نہیں پھنستے۔
اگر کہیں کوئی اکا دکا واقعہ ہو بھی جائے تو تفتیش کے بہت اعلی انتظامات موجود ہیں۔ سارے ملک میں ڈی این اے اور دوسرے متعلقہ ٹیسٹوں کے لیے میڈیکل لیبارٹریوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ اس لیے جنسی تشدد اور قتل کے سلسلے میں ہونے والی تفتیش کسی تاخیر کا شکار نہیں ہوتی۔ اس کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے ہماری پولیس یا دوسرے متعلقہ ادارے مالی اور دوسرے وسائل کی کمی کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ بات آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ ہماری حکومتوں نے اکثر نیوکلیر بم بنانے والی فیکٹریوں اور لیبارٹریوں کے پیسے روک کر پولیس کو مطلوب وسائل مہیا کیے ہیں۔ ہمارا ایٹمی بم دھماکہ اسی وجہ سے چند سال لیٹ ہو گیا تھا۔ لیکن ہم نے اپنی عورتوں اور بچوں کا تشدد سے بچاؤ پہلی ترجیح پر ہی رکھا ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ پاکستان کی پولیس بہت تربیت یافتہ ہے۔ ان کے پاس ہر قسم کے وسائل موجود ہیں اور وہ ایسے کیسز کو حل کرنے میں غلطی کرتے ہیں نہ دیر لگاتے ہیں۔ لوگوں کا بھی اپنی پولیس اور حکومتوں پر بہت اعتبار ہے۔ اس لیے زینب کے والدین سمیت سب لوگوں کو یقین ہے کہ زینب کے ریپسٹ اور قاتل کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا اور اسے قرار واقعی سزا ملے گی۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی بدگمانی کی گنجائش نہیں ہے۔
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے مستقبل کے لیے خاص انتظامات کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس سلسے میں پولیس کے وسائل کو چار گنا بڑھا دیا گیا ہے۔
جہاں تک عوام کی سوک ایجوکیشن کا تعلق ہے تو بتاتا چلوں کہ قصور کے لوگوں نے دکھی فیملی سے اظہار ہمدردی کے لیے ان کے گھر کے سامنے پھولوں کے گلدستے سجائے اور وہاں تھوڑی دیر بیٹھ کر ان سے اظہار ہمدردی کیا اور ان کا غم بانٹا۔ غم تو بہت ہے لیکن سب لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک شخص کی غلطی ہے اور ہر ذمہدار شہری اور حکومت کا نمائندہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے گا۔
زینب کے گھر والوں نے ان کے غم میں شریک ہونے پر سب لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور یقین ظاہر کیا کہ پولیس اس درندے کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی اور انہیں انصاف ملے گا تاکہ آئندہ کوئی بچی اس ظلم کا شکار نہ ہو۔
قصور سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں لوگوں نے پر امن واک کیے اور دکھی خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ پورے ملک میں ہونے والے واک پرامن تھے۔ ان میں مرد، عورتیں، بچے اور بچیاں سبھی شامل تھے۔ اتنے افسوس ناک واقعے کی وجہ سے پورے ملک میں ایک دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا گیا اور پاکستان کا جھنڈا بھی سر نگوں رہا۔
اگر یہ صورت حال اجنبی سی لگ رہی ہے تو پھر سنیں۔ ہم نے اپنے لیے ایک مختلف دنیا کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اس ملک میں پولیس کے پاس ہنر ہے نہ احساس اور جہاں تک مالی وسائل کا تعلق ہے وہ تو پولیس اپنے گھروں اور محکمے کے لیے خود ہی پیدا کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے پولیس کو بہت ہی کم وسائل دیے جاتے ہیں۔ در حقیقت شہریوں کی حفاظت پولیس کی ذمہداری ہی نہیں۔ ان کا کام تو بڑے بڑوں کا تحفظ ہے تاکہ وہ بلا خوف تمام جرائم کرتے پھریں۔
مجرموں کو پکڑنے کے لیے ماڈرن طریقے جیسے کہ ڈی این اے وغیرہ کا استعمال بھی بہت ہی محدود ہے۔ لیبارٹریاں بہت کم ہیں اور جو ہیں ان کا معیار بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالتوں کا نظام بھی خامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور لاکھوں کیسز سالہا سال سے پڑے ہوئے ہیں۔ عدالتیں اپنا کام چھوڑ کر انتظامیہ کے کام کے مزے لیتی ہیں۔
سکولوں میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کا نام تک لینا جرم ہے۔ وہ تو ہماری جعلی اقدار اور مذہب کے خلاف مغرب کی سازش ہوتی ہے جو موم بتی مافیا ڈالروں اور سیکس کے لالچ میں برپا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال ہزاروں بچے، بچیاں اور عورتیں اسی بربریت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ قصور کا ریکارڈ تو بہت ہی خراب ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ چند دن کے لیے لوگ جذباتی ہوتے ہیں۔ حکومت کمیٹی بنا دیتی ہے اور مشکل وقت گزر جاتا ہے۔ کوئی قابل ذکر تبدیلی ہمارے بندوبست میں نہیں ہو پاتی۔
ابھی قصور کے واقعے میں بھی لوگ جذباتی ہو کر سڑکوں پر نکل آئے۔ توڑ پھوڑ کی۔ ٹائر جلائے۔ سرکاری دفاتر پر حملہ آور ہوئے۔ پولیس نے بھی ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھایا۔ نتیجہ یہ کہ پولیس کی گولیاں لگنے سے کئی لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ نقصان اور بڑہ گیا۔
وزیر اعلی نے چوبیس گھنٹے کے اندر مجرم پکڑنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اسے بھی اتنی عقل نہیں کہ ایسے معاملے کو حل کرنے میں ہفتے نہیں بلکہ مہینے یا سال بھی لگ جاتے ہیں۔ اب ایک دو غریبوں کو پکڑ کر ملزم کی گرفتاری کا اعلان کر دیا جائے گا اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔
سوری زینب، تمھارا قتل ہم پر ہے۔ تمھارے تحفظ کے لیے ہم نے کچھ بھی تو انتظام نہیں کیا تھا۔ تمھارے قتل کے بعد بھی ہم نے بچوں اور بچیوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرنا۔ حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ہماری ترجیحات وہی ہیں جو تمھارے قتل سے پہلے تھیں۔ اس لیے اور بھی بچیاں تمھارے قاتل جیسے درندوں کا شکار ہوتی رہیں گی۔